باتوں باتوں میں چند قدموں کی دوری پر علی محمد ہمیں زمین کے اس قطعے پر لے آیا جسے ایک بچپن کی دوری پر ہم نے ٹیلیویژن سکرین پر دیکھا تھا۔ دھوئیں کے اڑتےمرغولوں کے سائے میں ایک گھڑی جس پر گیارہ بج کر تینتالیس منٹ کا وقت تھم گیا تھا، ایک ادھ جلا کچھ کچھ مانوس آئی ڈی کارڈ اور پھر اس فیڈ آؤٹ ہوتے منظر سے ابھرتی دوجہان کا درد سمیٹے نیر کمال کی خاموش بین کرتی آنکھیں۔ جھاڑیوں سے گھری اس خاردار زمین کو ہم نے بے اختیار کچھ باقیات کوئی اعزازی نشان ڈھونڈنے کو ٹٹولا۔ وہاں خدا کی سادہ زمین تھی اور کچھ نہیں تھا۔ سندھو اور سمندر کے سنگم کی اس سرزمین پر یہ قطعہ بہت مقدس تھا کہ یہ ارضِ وطن کی شہادتوں کا امین تھا۔ راشد کی گھڑی وہاں نہیں تھی مگر وقت تھم گیا تھا۔ وقت راشد کے لیے تھم گیا ہے کہ ہم بچپن کو پیچھے چھوڑ اب بڑھاپے کے دروازے پر دستک دینے کو کھڑے ہیں مگر راشد آج بھی ہم سب کے لیے وہی بیس برس کا نوخیز شہید ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ہم اپنا وقت آنے پر مر جائیں گے مگر وہ زندہ ہے اور رہے گا، اپنے رب کے ہاں اپنے حصے کا رزق پائے گا۔